جب میں مکتب کا تخیل باندھتا ہوں تو چند بچو ں کو لنچ باکس لے کر درخت کے سائے تلے اپنی اپنی روداد ِسرگزشت ِ صحرا نوردی سے بزم آراء پاتا ہوں۔ کہیں روبوٹکس ، طبیعیات اور ادب ، تو کہیں مصوری ،کار آفرینی اور موسیقی کا ذکر ہے۔ متفاوی جسمانی صلاحیتوں کے باوجود ہر بچہ کھیل کا شوقین ہے۔تمام طلباء تندہی سے مکتب کے فلاح ِ معاشرہ کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں اورمکتب سے ملحقہ گاؤں کے مستحق بچوں کو کمپیوٹر سائنس کی تعلیم سے آراستہ کر رہے ہیں۔ مکتب کی راہداریوں پر چلتا ہوا میں دیکھتا ہوں کہ کچھ بچے پھلوں سے لدے درختوں کی چھاؤ ں میں مصوری کر رہے ہیں تو کچھ بچے سائنس لیبارٹری میں طبیعیات کے تجربات کرنے میں محو ہیں۔ ساتھ والے کمرے میں ایک بچہ طبلے پر تین تال جاں فشانی سے سیکھ رہاہے۔ صحن میں کچھ طلباءکھڑے ہیں جنہوں نے ایک انٹرنیٹ کمپنی کا آغاز کیاہےاوراپنے قریب ترین دوستوں کو شمولیت کی دعوت دے رہے ہیں۔ ذرا آگے آتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ دو بچے دھریک کے درخت کے سائے تلے ڈیو فانٹا ئین مساوات پر کام کر رہے ہیں ۔ کُتب خانے میں جھانکتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ چند طلباء لائبریری میں موجود کتابوں میں سے اپنی پسندیدہ کُتب سے لطف اندوز ہورہے ہیں ۔ مکتب میں طلباء کے مابین صحیح معنوں میں دوستی و یگانگت ہے اور وہ اس غیر معمولی اسکول کی حقیقت سے آشنا ہیں۔ ۵۰ سال کے بعد وہ پدر بزرگ اور مادر بزرگ بن چکے ہوں گے ، اور تمام دنیا کے مختلف ممالک سے اپنے قریب ترین دوستوں سے ملنے آئیں گے اور کچھ لمحوں کے لئے مکتب میں بتائے ہوئے سنہرے ایام کی یاد آوری کریں گے۔ مکتب کا یہ دورہ ان کے سفر کا ایک پڑا ؤہے جہاں سے پھر وہ تاز دم ہو کر نئی امنگ اور ولولے سے دنیا کو بدلنے کے لئےدوبارہ نکل پڑیں گے۔
ڈاکٹر عرفان اللہ چودھری