پاکستان اور بالخصوص لاہور کی تعلیمی میدان میں ایک تاریخی حیثیت ہے۔تاہم وقت کے ساتھ ساتھ علم و فکر کا ذوق ناپید ہو گیا ہےاور اب ہم تعلیم و تربیت کو فقط معاشی استحکام حاصل کرنے کا زینہ سمجھتے ہیں۔
ڈاکٹر عرفان اللہ چودھری نے میسا چوسیٹ انسٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی)سے بی ایس سی اور پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی ۔ ایک دھائی سے زیادہ کا عرصہ ایم آئی ٹی میں گزارنے کے تجربے نے ان کی فکر پر گہرے نقوش چھوڑےاور انہوں نے "مکتب" کے قیام کی داغ بیل ڈالی۔ اسکول کے قیام کے پیچھے اولین محرک پاکستان میں ایک ایسی جگہ قائم کرنا تھی جہاں طلباء کو حساب ، سا ئنس او ر کمپوئٹرسائنس کی بین الاقوامی سطح کے بہترین اداروں کے مساوی تعلیم دی جائے۔
اس واضح تکنیکی رجحان کے باوجود، مکتب ہمیشہ سے ایک جامع تعلیمی ادارے کے طور پر فعال ہونے کی سوچ رکھتا ہے جہاں صرف ذہنی صلاحیتوں کی ہی نہیں بلکہ جسمانی اور روحانی صلاحیتوں کی بھی نشونما کی جائے۔اسکول کا مقصد اپنی کھوئی ہوئی اساس کی دریافت کے ساتھ ساتھ آموزش درخانے کا بہترین نعم البدل ثابت ہونا ہے اور ایسا معاون ماحول پیدا کرنا ہے جہاں بچوں کی سیکھنے ، باہمی احترام، محنت ، سماجی خدمات سے لطف اندوز ہونے اور قدرتی وسائل کے احترام جیسی خصوصیات کو نمو دی جا سکے۔
مہارت سے کمپیو ٹر کوڈ بناتے ہوئے، غالب کے خطوط میں کھوئے ہوئے ، علم ِ ہند سہ کے غیر معمولی مسائل کوحل کرتے ہوئے یا فیض کے کلام "ہم دیکھیں گے"پر دھن ترتیب دیتے اور گا تے ہوئےیا قانون ِ بقائے مادہ کی کھوج لگاتے ہوئےیا ہاکی میں ڈربلنگ کی مشق کرتے ہوئے یا دھریک کے درخت کے نیچے بیٹھے لائبریری کی کتابیں پڑھتے ہوئے یا وسائل سے محرو م طلباء کو کمپیوٹر کی تعلیم دیتے ہوئے مکتب کے طلباء مستقبل کی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوں گے۔ انہیں پاکستان کی اس منفرد شناخت پر فخر ہوگا ، وہ شنا خت جو انفرادیت رکھتی ہے، جو مغربی یا مشرقی سرحدوں سے مستعار نہیں لی گئی۔ وہ غالب، شیکسپیئر،فیض اور سلویہ پلاتھ سے لطف اندوز ہوں گے۔ ان کی انفرادی محققا نہ سوچ ہو گی۔ وہ سب کا احترام کریں گے مگر وہ فطرتی طور پر دنیا کے رہنما ہوں گے۔ وہ اپنے اوپر تمام مخلوقِ الہی کی بے پناہ ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے امامت کے فرائض بخوبی سر انجام دیں گے۔